بیٹھا ہوں سیہ بخت و مکدر اسی گھر میں
اترا تھا مرا ماہ منور اسی گھر میں
اے سانس کی خوشبو لب و عارض کے پسینے
کھولا تھا مرے دوست نے بستر اسی گھر میں
چٹکی تھیں اسی کنج میں اس ہونٹ کی کلیاں
مہکے تھے وہ اوقات میسر اسی گھر میں
افسانہ در افسانہ تھی مڑتی ہوئی سیڑھی
اشعار در اشعار تھا ہر در اسی گھر میں
ہوتی تھی حریفانہ بھی ہر بات پہ اک بات
رہتی تھی رقیبانہ بھی اکثر اسی گھر میں
شرمندہ ہوا تھا یہیں پندار امارت
چمکا تھا فقیروں کا مقدر اسی گھر میں
وہ جن کے در ناز پہ جھکتا تھا زمانہ
آتے تھے بڑی دور سے چل کر اسی گھر میں
غزل
بیٹھا ہوں سیہ بخت و مکدر اسی گھر میں
مصطفی زیدی