بہت زندگی کا بھلا چاہتا ہوں
بہ الفاظ دیگر قضا چاہتا ہوں
مری وحشتوں کا سبب کون سمجھے
کہ میں گم شدہ قافلہ چاہتا ہوں
بتوں سے ہوں بیزار اتنا کہ بس اب
خدا ہی خدا بس خدا چاہتا ہوں
یہ دنیا یہ عقبیٰ تو سب چاہتے ہیں
مگر میں کچھ اس کے سوا چاہتا ہوں
جداگانہ ہیں اب یزیدی مظالم
سو میں کربلا بھی جدا چاہتا ہوں
عناصر کی زنجیر کو توڑ کر میں
فنا چاہتا ہوں بقا چاہتا ہوں
مجھے شک ہے ہونے نہ ہونے پہ خالدؔ
اگر ہوں تو اپنا پتا چاہتا ہوں
غزل
بہت زندگی کا بھلا چاہتا ہوں
خالد مبشر