بہت واقف ہیں لب آہ و فغاں سے
تبسم ہے کہاں لاؤں کہاں سے
تصور بھول جاتا ہے خدا کو
یہ ٹکرایا ہے جب آہ و فغاں سے
یقیں ہونے کو ہے مایوسیوں پر
توقع اٹھ رہی ہے آسماں سے
مقفل ہو زباں جس بے نوا کی
وہ کیوں کر کیا کہے اپنی زباں سے
کہے کچھ بھی مگر پر سوز ہوگا
ہمیں امید ہے اپنی زباں سے
الٰہی خیر میرے آشیاں کی
دھواں سا اٹھ رہا ہے گلستاں سے
کہیں دھوکہ نہ ہو مغمومؔ یہ بھی
نظر آتے ہیں کچھ دھندلے نشاں سے
غزل
بہت واقف ہیں لب آہ و فغاں سے
گور بچن سنگھ دیال مغموم