بہت اکتا گیا جب شاعری سے
لپٹ کر رو پڑا میں زندگی سے
ابھی کچھ دور ہے شمشان لیکن
بدن سے راکھ جھڑتی ہے ابھی سے
اسے بھی ضبط کہنا ٹھیک ہوگا
بہت چیخا ہوں میں پر خامشی سے
بس اس کے بعد ہی میٹھی ندی ہے
کہا آوارگی نے تشنگی سے
لگا ہے سوچنے تھوڑا تو منصف
مرے حق میں تمہاری پیروی سے
میسر ہو گئیں شکلیں ہزاروں
ہوا یہ فائدہ بے چہرگی سے
سنو وہ دور بھی آئے گا کانہاؔ
تکے گا حسن جب بے چارگی سے

غزل
بہت اکتا گیا جب شاعری سے
پرکھر مالوی کانھا