بہت سے مدعی نکلے مگر جاں باز کم نکلے
پس مجنوں ہزاروں عاشقوں میں ایک ہم نکلے
نہیں ممکن کسی سے حسن کی باریکیاں حل ہوں
ترے ہر تار گیسو میں ہمارے پیچ و خم نکلے
یہ صورت ہو تو اپنا خاتمہ بالخیر ہو جائے
ادھر ہم سر جھکائیں اور ادھر تیغ دو دم نکلے
ہمیں ارمان ہے اس آستاں پر زندگی گزرے
اسی حسرت میں جیتے ہیں کہ ان قدموں پہ دم نکلے
غزل
بہت سے مدعی نکلے مگر جاں باز کم نکلے
مرزا ہادی رسوا