بہت مشکل ہے دریا پار جانا
مگر ہے کفر ہمت ہار جانا
بہت ممکن ہے قسمت منتظر ہو
تو پھر خوابوں میں بھی بیدار جانا
نہ جانا حلقۂ ظلمت میں چاہے
پڑے مقتل پس دیوار جانا
یہ کہہ کر وہ چلا سوئے شہادت
خدا کے پاس کیا بیمار جانا
امیر شہر کا حسن تدبر
رقیبوں کو بھی اپنا یار جانا
مقدر تھا جو بچ آئے سلامت
دل انکار کو اقرار جانا
تمنا جیت کی ہو زندگی میں
تو ہر محفل میں لے کر ہار جانا
اگر منصف بنا وہ خود نہ ہوگا
یہ راز اس نے سر دربار جانا
یہ پیہم مفلسی جن کا کرم ہے
انہیں کو ہم نے پالنہار جانا
لب و رخسار پر تالے پڑے ہیں
تو کیا خالدؔ پئے دیدار جانا
غزل
بہت مشکل ہے دریا پار جانا
خالد یوسف