بہت مزا تھا اڑان میں بھی
یقیں تھا روشن گمان میں بھی
حسین شب پر ہے چاند میرا
دیا جلا آسمان میں بھی
وہی اکیلا ہے انجمن میں
وہی ہے تنہا مکان میں بھی
چٹان میں بھی رواں ہے دریا
چھپا ہے دریا چٹان میں بھی
ہوئے تھے بازو بھی شل ہمارے
ہوا نہ تھی بادبان میں بھی
وہی تھا آغاز و انتہا بھی
وہی رہا درمیان میں بھی
چڑھا نہ تھا تیر بھی نظر کا
لچک نہ تھی کچھ کمان میں بھی
غزل
بہت مزا تھا اڑان میں بھی
لطف الرحمن