بہت کچھ بھول ہو گئی بھولنے کا شادؔ سن آیا
مری جاں غم عبث ہے جھڑکیاں سننے کا دن آیا
ضرور اس نے کیا قاصد سے وعدہ اپنے آنے کا
گیا تھا مضطرب یاں سے وہاں سے مطمئن آیا
دل صد پارہ سے نسبت نہیں زنہار اے بلبل
چمن میں جا کے عاشق پتیاں پھولوں کی گن آیا
بڑی عظمت سے خود ساقی نے جا کر پیشوائی کی
شرابی کوئی مے خانہ کے اندر جب مسن آیا
چلو واعظ سے ہرگز کچھ نہ بولو چپ رہو رندو
ہوا جوش غضب یا سر پہ اس ناداں کے جن آیا
مریض غم کی صحت کی خبر اللہ سنوائے
گیا جو پاس اس کے شادؔ وہ پھر مطمئن آیا
غزل
بہت کچھ بھول ہو گئی بھولنے کا شادؔ سن آیا
شاد عظیم آبادی