بہت خوبیاں ہیں ہوس کار دل میں
نیا شور مچتا ہے ہر بار دل میں
بدن کو کسو اور بس مسکرا دو
اتر جاؤ اب آخری بار دل میں
ابھی میرے چہرے کی رنگت الگ تھی
ابھی ہو رہی ہے دھواں دار دل میں
نئے چاند پر اب کے صدقہ کریں گے
سلامت رہیں سب گل و خار دل میں
ہمیں رزق کی کچھ ضرورت پڑے گی
دعا پک رہی ہے گنہ گار دل میں
اذانیں ہوئیں صبح روشن ہوئی ہے
چلو چل کے سوئیں اسی یار دل میں
میں جیسے ہی اس کی گلی کو مڑا ہوں
نہ دل جیب میں ہے نہ دل دار دل میں
زمیں کی چٹائی وہ پتھر کا تکیہ
خریدار دل میں نہ بازار دل میں
مہکتا سبک سا اڑا جا رہا ہوں
جٹا ہی لیے سارے اغیار دل میں
اسے کچھ نہ ہونے کا کتنا یقیں ہے
چھپا کر رکھو یہ کلاکار دل میں
رضاؔ آزمایا ہوا ہے پرانا
چلو یار گھر کو چلو یار دل میں

غزل
بہت خوبیاں ہیں ہوس کار دل میں
رؤف رضا