بہت خوش تھے ساحل قریب آ گیا
سفینہ کنارے سے ٹکرا گیا
ہے بے حد خطرناک بحر جہاں
جو انسان بھی اس میں ڈوبا گیا
ترے ڈر سے چھپ چھپ کے پیتے تھے ہم
گیا شیخ اب وہ زمانہ گیا
مجھے زندگی کی دعائیں نہ دو
میں ایسی دعاؤں سے اکتا گیا
نہ سمجھو کسی کی کسی بات کو
تمہیں کون یہ بات سمجھا گیا
وفائیں نہیں وہ جفائیں نہیں
نظام جہاں کچھ بدل سا گیا
یہ چھپ چھپ کے ملنا بھی ہے اک عذاب
کوئی آ گیا وہ کوئی آ گیا
یہاں تھے تو سرشارؔ کیا کچھ نہ تھے
گئے وہ تو خط بھی نہ بھیجا گیا
غزل
بہت خوش تھے ساحل قریب آ گیا
جیمنی سرشار