بہت جی ترستا رہا رات بھر
جو ہم سے بھی مل لو ملاقات بھر
بساط تمنا الٹتے ہو کیوں
کہ بازی یہ کھیلیں گے ہم رات بھر
ہے آنکھوں میں طوفاں بقدر جنوں
ہے دل میں تمنا خرابات بھر
نہیں مانگتے مستیٔ جاوداں
ہمیں چاہیئے مے مدارات بھر
ذرا دیکھ لو میرے دل کی طرف
یہ چھل بل ودیعت نہیں رات بھر
گھر آئی امنڈ کر گھٹا چار اور
کھلے گی طبیعت نہ برسات بھر
غزل
بہت جی ترستا رہا رات بھر
صفدر میر