بہتے پانی میں جو صورت ٹھہرے
میرے ہونے کی ضمانت ٹھہرے
اس کے جلوے سے ملی ہیں نظریں
اب کہاں پر مری قسمت ٹھہرے
خود کو آئینہ صفت دیکھتا ہوں
مجھ میں کچھ دیر تو قدرت ٹھہرے
تیز رفتاریٔ دنیا کیا ہے
میں بھی سوچوں جو یہ حالت ٹھہرے
کوئی تو کار جہاں ہم نفسو
جو مرے وقت کی قیمت ٹھہرے

غزل
بہتے پانی میں جو صورت ٹھہرے
اسحاق اطہر صدیقی