بہتے پانی کی طرح موج صدا کی صورت
سوئے منزل ہیں رواں لوگ ہوا کی صورت
جادۂ زیست پہ انسان کے آگے پیچھے
حادثے گھومتے رہتے ہیں قضا کی صورت
درد کو دل کے مٹانے کے لئے میں اب تو
روز لیتا ہوں ترا نام دوا کی صورت
یاد رکھ دہر کی دیوار کے ہٹنے پر ہی
دیکھ سکتی ہے کوئی آنکھ خدا کی صورت
حشر کے روز سے پہلے بھی تو میں داور حشر
زندگی کاٹ کے آیا ہوں سزا کی صورت
کھوج اس دور خرابی میں کوئی خوبی سوزؔ
نسل آدم کے لئے کوئی بقا کی صورت

غزل
بہتے پانی کی طرح موج صدا کی صورت
سوز نجیب آبادی