بہتے دریاؤں میں پانی کی کمی دیکھنا ہے
عمر بھر مجھ کو یہی تشنہ لبی دیکھنا ہے
رنج دل کو ہے کہ جی بھر کے نہیں دیکھا تجھے
خوف اس کا تھا جو آئندہ کبھی دیکھنا ہے
شب کی تاریکی در خواب ہمیشہ کو بند
چند دن بعد تو دنیا میں یہی دیکھنا ہے
خون کے قطروں نے طوفان اٹھا رکھا ہے
اب رگ و پے میں مجھے برف جمی دیکھنا ہے
کس طرح رینگنے لگتے ہیں یہ چلتے ہوئے لوگ
یارو کل دیکھو گے یا آج ابھی دیکھنا ہے
غزل
بہتے دریاؤں میں پانی کی کمی دیکھنا ہے
شہریار