EN हिंदी
بہتا ہے کوئی غم کا سمندر مرے اندر | شیح شیری
bahta hai koi gham ka samundar mere andar

غزل

بہتا ہے کوئی غم کا سمندر مرے اندر

شوزیب کاشر

;

بہتا ہے کوئی غم کا سمندر مرے اندر
چلتے ہیں تری یاد کے خنجر مرے اندر

کہرام مچا رہتا ہے اکثر مرے اندر
چلتی ہے ترے نام کی صرصر مرے اندر

گمنام سی اک جھیل ہوں خاموش فراموش
مت پھینک ارے یاد کے کنکر مرے اندر

جنت سے نکالا ہوا آدم ہوں میں آدم
باقی وہی لغزش کا ہے عنصر مرے اندر

کہتے ہیں جسے شام فراق اہل محبت
ٹھہرا ہے اسی شام کا منظر مرے اندر

آیا تھا کوئی شہر محبت سے ستم گر
پھر لوٹ گیا آگ جلا کر مرے اندر

احساس کا بندہ ہوں میں اخلاص کا شیدا
ہرگز نہیں حرص و ہوس زر مرے اندر

کیسے بھی ہوں حالات نمٹ لیتا ہوں ہنس کر
سنگین نتائج کا نہیں ڈر مرے اندر

میں پورے دل و جان سے ہو جاتا ہوں اس کا
کر لیتا ہے جب شخص کوئی گھر مرے اندر

میں کیا ہوں مری ہستی ہے مجموعۂ اضداد
ترتیب میں ہے کون سا جوہر مرے اندر

کڑھتا ہے کبھی دل کبھی رک جاتی ہیں سانسیں
ہر وقت بپا رہتا ہے محشر مرے اندر

ہم شکل مرا کون ہے ہم زاد‌ و ہم راز
رہتا ہے کوئی مجھ سا ہی پیکر مرے اندر

جب جب کوئی افتاد پڑی کھل گیا کاشرؔ
الہام کا اک اور نیا در مرے اندر