بحثیں چھڑی ہوئی ہیں حیات و ممات کی
سو بات بن گئی ہے فراقؔ ایک بات کی
ساز نوائے درد حجابات دہر میں
کتنی دکھی ہوئی ہیں رگیں کائنات کی
رکھ لی جنہوں نے کشمکش زندگی کی لاج
بے دردیاں نہ پوچھئے ان سے حیات کی
یوں فرط بے خودی سے محبت میں جان دے
تجھ کو بھی کچھ خبر نہ ہو اس واردات کی
ہے عشق اس تبسم جاں بخش کا شہید
رنگینیاں لئے ہے جو صبح حیات کی
چھیڑا ہے درد عشق نے تار رگ عدم
صورت پکڑ چلی ہیں نوائیں حیات کی
شام ابد کو جلوۂ صبح بہار دے
روداد چھیڑ زندگیٔ بے ثبات کی
اس بزم بے خودی میں وجود عدم کہاں
چلتی نہیں ہے سانس حیات و ممات کی
سو درد اک تبسم پنہاں میں بند ہیں
تصویر ہوں فراقؔ نشاط حیات کی
غزل
بحثیں چھڑی ہوئی ہیں حیات و ممات کی
فراق گورکھپوری