بہاؤں گا نہ میں آنسو نہ مسکراؤں گا
خموش رہ کے سلیقے سے غم مناؤں گا
کروں گا کام وہی جو دیا گیا ہے مجھے
میں خواب دیکھوں گا اور خواب ہی دکھاؤں گا
ادھوری بات بھی پوری سمجھنی ہوگی تمہیں
میں کچھ بتاؤں گا اور کچھ نہیں بتاؤں گا
میں آج تک نہیں مانا ہوں تیری دنیا کو
تو مان جائے تو میں اس کو مان جاؤں گا
اسی سوال نے سونے نہیں دیا شب بھر
تو مجھ سے پوچھے گا کیا اور میں کیا بتاؤں گا
تری کہانی میں رکھوں گا خود کو کچھ ایسے
میں داستاں میں نئی داستاں بناؤں گا
یہ مصلحت ہے مری بزدلی نہیں تیمورؔ
جہاں ضروری ہوا حوصلہ دکھاؤں گا
غزل
بہاؤں گا نہ میں آنسو نہ مسکراؤں گا
تیمور حسن