بہاروں سے خزاں تک یوں ہی سیر گلستاں کر کے
رفو کرتے رہے ہم جیب و داماں دھجیاں کر کے
ملے گا کیا تجھے صیاد مجھ کو بے زباں کر کے
سکون قلب ملتا ہے مجھے آہ و فغاں کر کے
چمن کو روشنی دی نذر آتش آشیاں کر کے
کیا یہ تجربہ ہم نے گھر اپنا رائیگاں کر کے
حقیقت میں کرم تم نے کیا ہے حق شناسوں پر
ہر اک کو واقف رسم جبین و آستاں کر کے
اٹھا پائے نہ ہم لطف بہاراں موسم گل میں
کہاں گم ہو گئی پرواز قید آشیاں کر کے
اب ایسی زندگی سے موت آ جاتی تو بہتر تھا
ہوئی تضحیک اپنی داستان دل بیاں کر کے
اگر تفصیل سے کہتا تو وہ شاید سمجھ جاتے
میں اب پچھتا رہا ہوں اختصار داستاں کر کے
بھٹکتے رہتے یوں ہی اور نہ پاتے عمر بھر منزل
بڑا احساں کیا تم نے شریک کارواں کر کے
سمجھ میں آ گئی ان کی خس و خاشاک کی عظمت
گئی ہیں بجلیاں آخر طواف آشیاں کر کے
زہے مشق تصور ہم انہیں دیکھا ہی کرتے ہیں
چھپیں چاہے جہاں وہ پردہ ہائے درمیاں کر کے
سمندر پھر ہلورے لے گا تہذیب و تمدن کا
ذرا دیکھو تو عاجزؔ شامل اردو زباں کر کے

غزل
بہاروں سے خزاں تک یوں ہی سیر گلستاں کر کے
عاجز ماتوی