بہار کون سی تجھ میں جمال یار نہ تھی
مشاہدہ تھا ترا سیر لالہ زار نہ تھی
مہکتی زلفوں سے خوشے گلوں کے چھوٹ گرے
کچھ اور جیسے کہ گنجائش بہار نہ تھی
ہم اپنے دل ہی کو روتے تھے لیکن اس کے لیے
جہاں میں کون سی شے تھی جو بے قرار نہ تھی
تلاش ایک بہانہ تھا خاک اڑانے کا
پتہ چلا کہ ہمیں جستجوئے یار نہ تھی
جھکا ہے قدموں میں تیرے وہ سر کہ جس کے لیے
کوئی جگہ بھی مناسب سوائے دار نہ تھی
نہ جانے زیبؔ دل زار کیوں تڑپ اٹھا
ہوائے صبح تھی خوشبوئے زلف یار نہ تھی
غزل
بہار کون سی تجھ میں جمال یار نہ تھی
زیب غوری