بہار کا روپ بھی نگاہوں میں اک فریب بہار سا ہے
حیات میں دل کشی نہیں ہے حیات میں انتشار سا ہے
زمانہ کیا دیکھیے دکھائے نہ جانے کیا انقلاب آئے
فلک کے تیور میں خشمگیں سے زمیں کے دل میں غبار سا ہے
کمال دیوانگی تو جب ہے رہے نہ احساس جیب و دامن
اگر ہے احساس جیب و دامن تو پھر جنوں ہوشیار سا ہے
کچھ آج ایسی ہی جی پہ گزری دبی ہوئی تھی جو چوٹ ابھری
جسے سنبھالے ہوا تھا دل میں وہ نالہ بے اختیار سا ہے
ابھی امید و وفا نہ توڑو سیاست دلبری نہ چھوڑو
کبھی جو فردوس رنگ و بو تھا وہ ایک اجڑا دیار سا ہے
نہالؔ کو بے پئے ہے مستی ہے مفت الزام مے پرستی
ہے عام اس شہر میں روایت یہ شخص کچھ بادہ خوار سا ہے
غزل
بہار کا روپ بھی نگاہوں میں اک فریب بہار سا ہے
نہال سیوہاروی