بہار گل سے اب دور خزاں تک
کہاں سے بات آ پہنچی کہاں تک
کہاں جائیں گے اب آخر یہاں سے
جو آ پہنچے تمہارے آستاں تک
ڈبو دے گا ہمیں خود ناخدا ہی
نہ تھا اس کا کبھی وہم و گماں تک
رفو گر آ کے بھی اب کیا سیے گا
نہیں دامن کی باقی دھجیاں تک
غضب ہے جل گیا دل کا نشیمن
نہیں اٹھا مگر اس سے دھواں تک
پتہ دیتے ہیں کس کی عظمتوں کا
مہ و انجم سے راہ کہکشاں تک
ترا جانبازؔ ہو کر ڈگمگائے
بھلا دار و رسن کے امتحاں تک

غزل
بہار گل سے اب دور خزاں تک
ستیہ پال جانباز