بہار بن کے جب سے وہ مرے جہاں پہ چھائے ہیں
تجلیوں کی چاندنی ہے مکتبوں کے سائے ہیں
ٹھہر ٹھہر کے خوش گوار انقلاب آئے ہیں
سنبھل سنبھل کے وہ مرے جنوں پہ مسکرائے ہیں
ہزار احتیاط کی ہے لاکھ غم چھپائے ہیں
مگر تڑپ اٹھا ہے دل وہ جب بھی یاد آئے ہیں
سمجھ سمجھ کے بارہا یہ بن پرے کی بات ہے
فریب ان کی مہربانیوں کے ہم نے کھائے ہیں
سحر سحر مہک اٹھی چمن چمن سنور گیا
بہار مسکرائی ہے کہ آپ مسکرائے ہیں
جو دل سجا چکے تھے خود پرستیوں کی انجمن
ہم ان میں جذبۂ غم جہاں ابھار آئے ہیں
نقاب رخ سے جب اٹھی بکھر گئیں تجلیاں
لطیف بجلیاں گری ہیں جب وہ مسکرائے ہیں
دیار تیغ و دار کے جمال کو نکھار کے
ہم اپنے خوں سے مقتل وفا سنوار آئے ہیں
کبھی لباس نظم میں کبھی غزل کے روپ میں
جو وقت کی پکار تھے وہ گیت ہم نے گائے ہیں
نہالؔ کائنات میں ہمیں تو یہ یقین ہے
اب آدمی نہیں رہا ہے آدمی کے سائے ہیں
غزل
بہار بن کے جب سے وہ مرے جہاں پہ چھائے ہیں
نہال رضوی