بہار آتی ہے لیکن سر میں وہ سودا نہیں ہوتا
ہر آہٹ پر تری آواز کا دھوکا نہیں ہوتا
ترا غم ہو تو آ جائے سلیقہ مسکرانے کا
کہ ہر آزار جاں شائستۂ دنیا نہیں ہوتا
نشاں کنج طرب کا کوہسار غم سے ملتا ہے
بھٹک جاتا ہوں میں جب راہ میں دریا نہیں ہوتا
یہی صورت تو ہر سو کوچہ و بازار میں بھی ہے
جہاں وحشت برستی ہو وہیں صحرا نہیں ہوتا
اک آئینہ بہر صورت پس آئینہ ہوتا ہے
جو چمکے آبگینے میں وہی چہرہ نہیں ہوتا
اسے یہ خوش نما دنیا کبھی اچھی نہیں لگتی
کسی مصرف کا کار دیدۂ بینا نہیں ہوتا
بہانہ تجھ سے ملنے کا یہ تنہائی نے ڈھونڈا ہے
سر محفل کسی کو دید کا یارا نہیں ہوتا
جو دی ہیں نعمتیں یا رب تو پھر حق تصرف دے
نظر اپنی دماغ اپنا ہے دل اپنا نہیں ہوتا
ذرا کچھ شغل نیکو کار بھی سید امین اشرفؔ
فقط نام و نسب سے آدمی اچھا نہیں ہوتا
غزل
بہار آتی ہے لیکن سر میں وہ سودا نہیں ہوتا
سید امین اشرف