EN हिंदी
بہار آئی ہے پھر وحشت کے ساماں ہوتے جاتے ہیں | شیح شیری
bahaar aai hai phir wahshat ke saman hote jate hain

غزل

بہار آئی ہے پھر وحشت کے ساماں ہوتے جاتے ہیں

نسیم بھرتپوری

;

بہار آئی ہے پھر وحشت کے ساماں ہوتے جاتے ہیں
مرے سینے میں داغوں کے گلستاں ہوتے جاتے ہیں

مجھے بچپن کر کے دل دہی بھی ہوتی جاتی ہے
جفائیں کرتے جاتے ہیں پشیماں ہوتے جاتے ہیں

کہاں جاتا ہے اے دل شکوۂ مہر و وفا کرنے
وہاں بیداد کرنے کے بھی احساں ہوتے جاتے ہیں

نسیمؔ زندہ دل مرنے لگے ہیں خوب رویوں پر
غضب ہے ایسے دانش مند ناداں ہوتے جاتے ہیں