بہار آئی ہے پھر چمن میں نسیم اٹھلا کے چل رہی ہے
ہر ایک غنچہ چٹک رہا ہے گلوں کی رنگت بدل رہی ہے
وہ آ گئے لو وہ جی اٹھا میں عدو کی امید یاس ٹھہری
عجب تماشا ہے دل لگی ہے قضا کھڑی ہاتھ مل رہی ہے
بتاؤ دل دوں نہ دوں کہو تو عجیب نازک معاملہ ہے
ادھر تو دیکھو نظر ملاؤ یہ کس کی شوخی مچل رہی ہے
تڑپ رہا ہوں یہاں میں تنہا وہاں عدو سے وہ ہم بغل ہیں
کسی کے دم پر بنی ہوئی ہے کسی کی حسرت نکل رہی ہے
گھٹا وہ چھائی وہ ابر اٹھا یہی تو ہے وقت مے کشی کا
بلاؤ شاعرؔ کو ہے کہاں وہ شراب شیشے سے ڈھل رہی ہے
غزل
بہار آئی ہے پھر چمن میں نسیم اٹھلا کے چل رہی ہے
آغا شاعر قزلباش