EN हिंदी
بہار آئی ہے مستانہ گھٹا کچھ اور کہتی ہے | شیح شیری
bahaar aai hai mastana ghaTa kuchh aur kahti hai

غزل

بہار آئی ہے مستانہ گھٹا کچھ اور کہتی ہے

اختر شیرانی

;

بہار آئی ہے مستانہ گھٹا کچھ اور کہتی ہے
مگر ان شوخ نظروں کی حیا کچھ اور کہتی ہے

رہائی کی خبر کس نے اڑائی صحن گلشن میں
اسیران قفس سے تو صبا کچھ اور کہتی ہے

بہت خوش ہے دل ناداں ہوائے کوے جاناں میں
مگر ہم سے زمانے کی ہوا کچھ اور کہتی ہے

تو میرے دل کی سن آغوش بن کر کہہ رہا ہے کچھ
تری نیچی نظر تو جانے کیا کچھ اور کہتی ہے

مری جانب سے کہہ دینا صبا لاہور والوں سے
کہ اس موسم میں دہلی کی ہوا کچھ اور کہتی ہے

ہوئی مدت کے مے نوشی سے توبہ کر چکے اخترؔ
مگر دہلی کی مستانہ فضا کچھ اور کہتی ہے