بہار آئی ہے مستانہ گھٹا کچھ اور کہتی ہے
مگر ان شوخ نظروں کی حیا کچھ اور کہتی ہے
رہائی کی خبر کس نے اڑائی صحن گلشن میں
اسیران قفس سے تو صبا کچھ اور کہتی ہے
بہت خوش ہے دل ناداں ہوائے کوے جاناں میں
مگر ہم سے زمانے کی ہوا کچھ اور کہتی ہے
تو میرے دل کی سن آغوش بن کر کہہ رہا ہے کچھ
تری نیچی نظر تو جانے کیا کچھ اور کہتی ہے
مری جانب سے کہہ دینا صبا لاہور والوں سے
کہ اس موسم میں دہلی کی ہوا کچھ اور کہتی ہے
ہوئی مدت کے مے نوشی سے توبہ کر چکے اخترؔ
مگر دہلی کی مستانہ فضا کچھ اور کہتی ہے
غزل
بہار آئی ہے مستانہ گھٹا کچھ اور کہتی ہے
اختر شیرانی