بہار آئی گل افشانیوں کے دن آئے
اٹھاؤ ساز غزل خوانیوں کے دن آئے
نگاہ شوق کی گستاخیوں کا دور آیا
دل خراب کی نادانیوں کے دن آئے
نگاہ حسن خریداریوں پہ مائل ہے
متاع شوق کی ارزانیوں کے دن آئے
مزاج عقل کی ناسازیوں کا موسم ہے
جنوں کی سلسلہ جنبانیوں کے دن آئے
سروں نے دعوت آشفتگی کا قصد کیا
دلوں میں درد کی مہمانیوں کے دن آئے
چراغ لالہ و گل کی ٹپک پڑی ہیں لویں
چمن میں پھر شرر افشانیوں کے دن آئے
بہار باعث جمعیت چمن نہ ہوئی
شمیم گل کی پریشانیوں کے دن آئے
ادھر چمن میں زر گل لٹا ادھر تاباںؔ
ہماری بے سر و سامانیوں کے دن آئے
غزل
بہار آئی گل افشانیوں کے دن آئے
غلام ربانی تاباںؔ