بہار آ کر جو گلشن میں وہ گائیں
تو غنچہ ہر طرف چٹکی بجائیں
یہ تم کو دیکھ کر گل پھول جائیں
کہ جامہ میں نہ پھر پھولے سمائیں
ملے رستہ تو سوئے چرخ جائیں
کہاں تک اس زمیں پر خاک اڑائیں
مثال شمع اس پر لو لگائیں
سحر تک شام سے آنسو بہائیں
مرے مرنے سے یہ اندھیر کا سوگ
کہو مسی ملیں سرمہ لگائیں
چمن میں اس سے ہم چشمی یہ دیدہ
تری آنکھیں نہ نرگس پھوٹ جائیں
خدا کے پاس کیا جائیں گے زاہد
گنہگاروں سے جب یہ بار پائیں
تردد پھول کا کس واسطے ہے
مری تربت پہ وہ تیوری چڑھائیں
مرے لاشہ کو کاندھا دے کے بولے
چلو تربت میں اب تم کو سلائیں
سخیؔ روتے ہی روتے دم نکل جائے
فراغت ہو کہیں گنگا نہائیں
غزل
بہار آ کر جو گلشن میں وہ گائیں
سخی لکھنوی