بگولوں کی صفیں کرنوں کے لشکر سامنے آئے
قدم اٹھے جدھر زخموں کے پتھر سامنے آئے
تھکن سے ٹوٹ کر جب خواب راحت کی تمنا کی
ردائے غم لیے کانٹوں کے بستر سامنے آئے
دریدہ بادباں کمزور کشتی رات طوفانی
دہن کھولے سیاہی کے سمندر سامنے آئے
تلاش آب حیواں میں جہاں میرے قدم پہنچے
وہاں زہراب سے لبریز ساغر سامنے آئے
غریب شہر کس کے آستانے پر سدا دیتا
کئی گھر راہ میں دیکھے کئی در سامنے آئے
مرے خوددار لب پر جب کبھی لفظ انا آیا
مری قیمت لگانے کیسۂ زر سامنے آئے
مزاج ایسا ہے کچھ ماہرؔ مروت آ ہی جاتی ہے
کوئی شاطر اگر معصوم بن کر سامنے آئے
غزل
بگولوں کی صفیں کرنوں کے لشکر سامنے آئے
اقبال ماہر