بگولے بہت ہیں مری گھات میں
گھرا ہوں عجب دشت حالات میں
کبھی خوں سے رنگیں بھی ہو چشم تر
دھنک بھی نظر آئے برسات میں
کسی درد کی آنچ دے کر پرکھ
چمکتی ہے اک شے مری ذات میں
لکیروں کا ہر سلسلہ بے کراں
کھلے پانیوں کا سفر ہات میں
وہی تیری آنکھوں کے حیرت کدے
وہی میں جہان طلسمات میں
سیہ گھر کی بیمار ضو سے نکل
ذرا گھوم پھر چاندنی رات میں
بچھا ہے کہیں ذہن میں دام سا
پھڑکتا ہے کوئی خیالات میں
بجا نرمیٔ لفظ شاہیںؔ مگر
لیے پھر کوئی سنگ بھی ہات میں
غزل
بگولے بہت ہیں مری گھات میں
جاوید شاہین