EN हिंदी
بگولہ بن کے ناچتا ہوا یہ تن گزر گیا | شیح شیری
bagula ban ke nachta hua ye tan guzar gaya

غزل

بگولہ بن کے ناچتا ہوا یہ تن گزر گیا

علینا عترت

;

بگولہ بن کے ناچتا ہوا یہ تن گزر گیا
ہوا میں دیر تک اڑا غبار اور بکھر گیا

ہماری مٹی جانے کون ذرہ ذرہ کر گیا
بغیر شکل یہ وجود چاک پر بکھر گیا

یہ روح حسرت وجود کی بقا کا نام ہے
بدن نہ ہو سکا جو خواب روح میں ٹھہر گیا

عجب سی کشمکش تمام عمر ساتھ ساتھ تھی
رکھا جو روح کا بھرم تو جسم میرا مر گیا

ہر ایک راہ اس کے واسطے تھی بے قرار اور
مسافر اپنی دھن میں منزلوں سے بھی گزر گیا

اڑا دی راکھ جسم کی خلا میں دور دور جب
علیناؔ آسمانی نور روح میں اتر گیا