بغل میں ہم نے رات اک غیرت مہتاب دیکھا ہے
تمہیں اس خواب کی تعبیر ہو کیا خواب دیکھا ہے
تڑپ بجلی کی بھی دیکھی ہے وہ دل تھام لیتے ہیں
تری بے تابیوں کو بھی دل بے تاب دیکھا ہے
وہ الفت دوست ہوں ناصح دعا ہی دل سے نکلی ہے
اگر دشمن کے گھر بھی مجمع احباب دیکھا ہے
خدا کے سامنے اے محتسب سچ بولنا ہوگا
مرے ساغر میں مے دیکھی ہے یا خوں ناب دیکھا ہے
مبارکؔ اضطراب شوق کا عالم نہیں چھپتا
کہ جب دیکھا ہے ہم نے آپ کو بے تاب دیکھا ہے
غزل
بغل میں ہم نے رات اک غیرت مہتاب دیکھا ہے
مبارک عظیم آبادی