بغیر ساغر و یار جواں نہیں گزرے
ہماری عمر کے دن رائیگاں نہیں گزرے
ہجوم گل میں رہے ہم ہزار دست دراز
صبا نفس تھے کسی پر گراں نہیں گزرے
نمود ان کی بھی دور سبو میں تھی کل رات
ابھی جو دور تہ آسماں نہیں گزرے
نقوش پا سے ہمارے اگے ہیں لالہ و گل
رہ بہار سے ہم بے نشاں نہیں گزرے
غلط ہے ہم نفسو ان کا زندگی میں شمار
جو دن بخدمت پیر مغاں نہیں گزرے
ظفرؔ کا مشرب رندی ہے اک جہاں سے الگ
مری نگاہ سے ایسے جواں نہیں گزرے
غزل
بغیر ساغر و یار جواں نہیں گزرے
سراج الدین ظفر