بدنام ہوں پر عاشق بدنام تمہارا
ناکام ہوں پر طالب ناکام تمہارا
میں اس کو نہ بیچوں عوض ملک سلیماں
ہے ثبت سر خاتم دل نام تمہارا
یاں ساغر دل خون تمنا سے بھرا ہے
پر بادۂ گلگوں سے وہاں جام تمہارا
محرومیٔ قسمت ہے مری خاص وگرنہ
مشہور جہاں ہے کرم عام تمہارا
جچتے نہیں نظروں میں مہ و مہر کے جلوے
رہتا ہے تصور سحر و شام تمہارا
تم جس سے پھرو اس سے ہو برگشتہ زمانہ
دم بھرنے لگی گردش ایام تمہارا
غفلت میں کٹی جاتی ہے محرومؔ جوانی
اچھا نظر آتا نہیں انجام تمہارا
غزل
بدنام ہوں پر عاشق بدنام تمہارا
تلوک چند محروم