بدلی سی اپنی آنکھوں میں چھائی ہوئی سی ہے
بھولی ہوئی سی یاد پھر آئی ہوئی سی ہے
مت ہاتھ رکھ سلگتے کلیجے پہ ہم نشیں
یہ آگ دیکھنے میں بجھائی ہوئی سی ہے
لیتا ہوں سانس بھی تو بھٹکتا ہے تن بدن
رگ رگ میں ایک نوک سمائی ہوئی سی ہے
بے ساختہ کہے ہے جو دیکھے ہے زخم دل
یہ چوٹ تو انہیں کی لگائی ہوئی سی ہے
مدت ہوئی جلائی گئی شاخ آشیاں
اب تک اسی طرح سے جلائی ہوئی سی ہے
جو ان کی بات ہے وہی میری غزل کی بات
لیکن ذرا یہ بات بنائی ہوئی سی ہے
چھیڑی غزل جو تم نے تو ایسا لگا کلیمؔ
خوشبو کسی کی زلف کی آئی ہوئی سی ہے
غزل
بدلی سی اپنی آنکھوں میں چھائی ہوئی سی ہے
کلیم عاجز