بدلے گا رخ ہوا کبھی تو
کھل جائے گا راستہ کبھی تو
غفلت پہ خود اپنی چونک اٹھے گا
سن کر وہ مری صدا کبھی تو
ہو جائے گا منکشف بھی خود پر
دیکھے گا وہ آئنہ کبھی تو
کب تک یہ ادائے بے نیازی
ٹوٹے گا یہ سلسلہ کبھی تو
کھولے گا وہ مجھ پہ باب رحمت
سن لے گا مری دعا کبھی تو
قائم ہے امید پر ہی دنیا
حل ہوگا یہ مسئلہ کبھی تو
کر دے گا زمیں کا بوجھ ہلکا
اٹھے گا گرا ہوا کبھی تو
بیٹھا ہوں میں اس کے راستے پر
ہو جائے گا سامنا کبھی تو
دی ہے درد دل پہ اس کے دستک
طے ہوگا یہ فاصلہ کبھی تو
غزل
بدلے گا رخ ہوا کبھی تو
ارمان نجمی