بدلے بدلے مرے غم خوار نظر آتے ہیں
مرحلے عشق کے دشوار نظر آتے ہیں
کشتئ غیرت احساس سلامت یا رب
آج طوفان کے آثار نظر آتے ہیں
انقلاب آیا نہ جانے یہ چمن میں کیسا
غنچہ و گل مجھے تلوار نظر آتے ہیں
جن کی آنکھوں سے چھلکتا تھا کبھی رنگ خلوص
ان دنوں مائل تکرار نظر آتے ہیں
جو سنا کرتے تھے ہنس ہنس کے کبھی نامۂ شوق
اب مری شکل سے بیزار نظر آتے ہیں
ان کے آگے جو جھکی رہتی ہیں نظریں اپنی
اس لیے ہم ہی خطاوار نظر آتے ہیں
دشمن خوئے وفا رسم محبت کے حریف
وہی کیا اور بھی دو چار نظر آتے ہیں
جنس نایاب محبت کی خدا خیر کرے
بوالہوس اس کے خریدار نظر آتے ہیں
وقت کے پوجنے والے ہیں پجاری ان کے
کوئی مطلب ہو تو غم خوار نظر آتے ہیں
جائزہ دل کا اگر لو تو وفا سے خالی
شکل دیکھو تو نمک خوار نظر آتے ہیں
روز روشن میں اگر ان کو دکھاؤ تارے
وہ یہ کہہ دیں گے کہ سرکار نظر آتے ہیں
ہم نہ بدلے تھے نہ بدلے ہیں نہ بدلیں گے شکیلؔ
ایک ہی رنگ میں ہر بار نظر آتے ہیں
غزل
بدلے بدلے مرے غم خوار نظر آتے ہیں
شکیل بدایونی