بدلا مزاج حسن تو وہ رو بہ رو نہیں
وہ عشوہ و ادا نہیں وہ گفتگو نہیں
دل سے تجھے نکال کے کچھ مطمئن تو ہوں
پھر بھی کہوں یہ کیسے تری جستجو نہیں
خوشبو نہ جن کی پھیلے فضاؤں میں چار سو
گلشن میں ایسے پھولوں کی کچھ آبرو نہیں
جب سے نظام مے کدہ بدلا ہے دوستو
وہ مے نہیں وہ جام نہیں وہ سبو نہیں
چرچے وہ دوستوں نے دیئے ہیں کہ الاماں
اب راہ و رسم کی بھی مجھے آرزو نہیں
قیصرؔ ہر اک طرف ہے گرانی کا تذکرہ
لیکن ذرا بتائیے سستا لہو نہیں

غزل
بدلا مزاج حسن تو وہ رو بہ رو نہیں
قیصر عثمانی