بڑی تمنا ہے جاؤں سوئے ستم کسی دن
مزاج پوچھے تو کوئی اہل کرم کسی دن
وہ بھیگا چہرہ سبھوں سے ہٹ کر سوال پوچھے
ہماری آنکھوں کی آگ ہوگی نہ کم کسی دن
ہمارے مسلک کا آدمی کیا کہے گا ہم کو
جو ڈھل گئے مصلحت کے سانچے میں ہم کسی دن
ہمارے مابین بد گمانی کی اینٹ کیسی
ملے جو موقع تو پوچھیں تجھ سے صنم کسی دن
جو آئینے میں تمہارے جاگے وہ عکس رکھ لو
یہ بھیڑ پرچھائیوں کی ہوگی نہ کم کسی دن
تمہیں بھی ہم زندگی کی کوئی صلاح دیں گے
سمجھ گئے دھوپ چھاؤں اپنی جو ہم کسی دن
ہمارے حصے کی روشنی تم جگائے رکھنا
کہ تیرگی کے سفر سے لوٹیں گے ہم کسی دن
غزل
بڑی تمنا ہے جاؤں سوئے ستم کسی دن
ناظم سلطانپوری