بڑھتی جاتی ہے میری اس کی چاہ
سچ ہے ہوتی ہے دل کو دل سے راہ
اس دہان و کمر کی مت پوچھو
کام کرتی نہیں کسی کی نگاہ
مرتے ہیں انتظار میں اس کے
آ بھی جائے کہیں وہ یا اللہ
اس کی زلف سیہ ہے ایک بلا
اس بلا سے خدا ہی دیوے پناہ
کھینچ کر مجھ پہ غیر کو ماری
آفریں آفریں جزاک اللہ
ہے شب زلف کا تماشائی
کیوں نہ ؔجوشش کا ہووے روز سیاہ
غزل
بڑھتی جاتی ہے میری اس کی چاہ
جوشش عظیم آبادی