بڑھتے ہیں خود بہ خود قدم عزم سفر کو کیا کروں
زیر قدم ہے کہکشاں ذوق نظر کو کیا کروں
تیز ہے کاروان وقت تشنہ ہے جستجو ابھی
روک لوں زندگی کہاں شام و سحر کو کیا کروں
دیر و حرم کے رنگ بھی دیکھ چکی نگاہ زیست
دل میں تو ہے وہی چبھن آہ سحر کو کیا کروں
آج بھی ہے وہی مقام آج بھی لب پہ ان کا نام
منزل بے شمار گام اپنے سفر کو کیا کروں
یاد کسی کی آ گئی ہو گئی دھندلی کائنات
پردے میں چھپ گیا کوئی دیدۂ تر کو کیا کروں
کتنی امیدوں کے چراغ راہ میں بجھ کے رہ گئے
اپنے تو پاؤں تھک گئے شوق سفر کو کیا کروں
ہو گئی زندگی کی شام سالکؔ راہ تھک گئے
منزلیں دور ہو گئیں راہ گزر کو کیا کروں
غزل
بڑھتے ہیں خود بہ خود قدم عزم سفر کو کیا کروں
سالک لکھنوی