بڑھا تنہائی میں احساس غم آہستہ آہستہ
ہمیں یاد آئے سب اہل کرم آہستہ آہستہ
دل مضطر کی بیتابی کا عالم کیسا عالم ہے
کھنچا جاتا ہے دل سوئے صنم آہستہ آہستہ
چلا ہوں منزل جاناں میں کچھ ایسے تأثر سے
نظر شرمندہ شرمندہ قدم آہستہ آہستہ
نگاہ لطف کس کی ہو گئی میرے مقدر پر
یہ کس کا ہو گیا حسن کرم آہستہ آہستہ
محبت کرنے کا ہم کو صلہ اچھا ملا اے دل
سمٹ آئے مرے دامن میں غم آہستہ آہستہ
حقیقت میں اگر پوچھو بہاران گلستاں کا
چمن والوں نے توڑا ہے بھرم آہستہ آہستہ
کہاں تک ضبط کرتے بزم کی کوتاہ بینی کو
مبینؔ اٹھنا پڑا با چشم نم آہستہ آہستہ
غزل
بڑھا تنہائی میں احساس غم آہستہ آہستہ
سید مبین علوی خیرآبادی