EN हिंदी
بڑھا دی اک نظر میں تو نے کیا توقیر پتھر کی | شیح شیری
baDha di ek nazar mein tu ne kya tauqir patthar ki

غزل

بڑھا دی اک نظر میں تو نے کیا توقیر پتھر کی

حبیب موسوی

;

بڑھا دی اک نظر میں تو نے کیا توقیر پتھر کی
بنا کحل البصر اللہ رے تقدیر پتھر کی

اسیر زلف کیوں کر چھٹ سکیں گے قید وحشت سے
کہ ہے ہر جادۂ دشت جنوں زنجیر پتھر کی

یہ جلوہ ہے کنشت و دیر میں صانع کی قدرت کا
کہ دعوی خدائی کرتی ہے تصویر پتھر کی

تلاش رزق میں ہو آسیا کی طرح سرگرداں
اگر دانا ہے تو بھی سیکھ لے تدبیر پتھر کی

بتا سنگ جراحت آ کے زخم تیغ ابرو پر
ہوا اچھا ترے عاشق کو دی تعزیر پتھر کی

فسون چشم قاتل سے بنا ہوں سحر کا پتلا
جو چھو لے میری گردن کو تو ہو شمشیر پتھر کی

شب فرقت میں جو سوچے تھے کرتے وہ شکایت کیا
نظر کرتے ہی ان پر بن گئے تصویر پتھر کی

نہ نکلی ہے نہ نکلے گی جمی ہے دل میں جو ان کے
مٹانے سے بھی مٹتی ہے کہیں تحریر پتھر کی

سزائے عشق مژگان بتان سنگ دل پائی
ہوئی بارش ہر اک جانب سے ہم پر تیر پتھر کی

نہ فرق آیا حبیبؔ صابر و شاکر کی راحت میں
بنا دنیا میں قسمت کا لکھا تحریر پتھر کی