بڑھ چلا عشق تو دل چھوڑ کے دنیا اٹھا
خود بخود جوش مے ناب سے شیشہ اٹھا
دست نازک سے زر گل کا بھی اٹھنا ہے محال
یہ تو فرمائیے کس وجہ سے توڑا اٹھا
جب پکارے لب جاں بخش سے وہ مر گئے ہم
نا توانوں سے نہ بار دم عیسیٰ اٹھا
خاکساروں میں نہیں ایسے کسی کی توقیر
قد آدم مری تعظیم کو سایا اٹھا
یاد اس بت کی نمازوں میں جو آئی مجھ کو
تپش شوق سے ہر بار میں بیٹھا اٹھا
غزل
بڑھ چلا عشق تو دل چھوڑ کے دنیا اٹھا
منیرؔ شکوہ آبادی