بڑے طوفاں اٹھانے کے لیے ہیں
یہ آنکھیں مسکرانے کے لیے ہیں
بالآخر کم پڑے گا یہ اندھیرا
چراغ اتنے جلانے کے لیے ہیں
یہ خوشبو لمحے اور یہ خوش ادا لوگ
بچھڑ کر یاد آنے کے لیے ہیں
خدا جانے یہ دل کے وسوسے اب
مجھے کیا دن دکھانے کے لیے ہیں
ہوا کرتے تھے ہم اپنے لیے بھی
مگر اب تو زمانے کے لیے ہیں
جو آنکھیں خواب بننے کے لیے تھیں
وہ اب آنسو بہانے کے لیے ہیں
ہم ایسے لوگ اس کی انجمن میں
چراغ دل جلانے کے لیے ہیں
غزل
بڑے طوفاں اٹھانے کے لیے ہیں
مبین مرزا