بڑے خطرے میں ہے حسن گلستاں ہم نہ کہتے تھے
چمن تک آ گئی دیوار زنداں ہم نہ کہتے تھے
بھرے بازار میں جنس وفا بے آبرو ہوگی
اٹھے گا اعتبار کوئے جاناں ہم نہ کہتے تھے
اسی محفل اسی بزم وفا کے گوشے گوشے میں
لٹے گی مستئ چشم غزالاں، ہم نہ کہتے تھے
اسی رستے میں آخر وہ کڑی منزل بھی آئے گی
جہاں دم توڑ دے گی یاد یاراں ہم نہ کہتے تھے
خزاں کی آہٹوں پر کانپتی ہیں پتیاں گل کی
بکھرنے کو ہے اب زلف بہاراں ہم نہ کہتے تھے
دل فطرت شناس آخر کہیں یوں ہی دھڑکتا ہے
فریب حسن ہے جشن چراغاں ہم نہ کہتے تھے
غزل
بڑے خطرے میں ہے حسن گلستاں ہم نہ کہتے تھے
سیف الدین سیف