بڑے جتن سے بڑے سوچ سے اتارا گیا
مرا ستارا سر خاک بھی سنوارا گیا
مری وفا نے جنوں کا حساب دینا تھا
سو آج مجھ کو بیابان سے پکارا گیا
بس ایک خوف تھا زندہ تری جدائی کا
مرا وہ آخری دشمن بھی آج مارا گیا
مجھے یقین تھا اس تجربے سے پہلے بھی
سنا ہے غیر سے جلوہ نہیں سہارا گیا
سجا دیا ہے تصور نے دھوپ کا منظر
اگرچہ برف کی تصویر سے گزارا گیا
ملا ہے خاک سے نسبت کا پھر صلہ مجھ کو
مرا ہی نام ہے گردوں سے جو پکارا گیا
میں دیکھتا رہا دنیا کو دور سے ساحلؔ
مرے مکان سے آگے تلک کنارا گیا
غزل
بڑے جتن سے بڑے سوچ سے اتارا گیا
خالد ملک ساحلؔ