بدن سندر سجل مکھ پر سنہاپا
بہت انمول ہے اس کا سراپا
سفر کی ابتدا بھی انتہا بھی
وہی لوٹا کھسوٹی آپی دھاپا
تو دیوی ہے نہ میں اوتار پھر بھی
تجھے ہر جگ جنم میں جی نے جاپا
جھروکوں سے اگر پڑوسی نہ جھانکیں
ابھاگن تو بتا ہی لے رنڈاپا
سکھی ری ہو نہ ہو سیاں ہے میرا
ملن سر جس نے مرلی میں الاپا
کبھی پاٹے چڑھے جل تیری خاطر
کبھی تپتے بیابانوں کو ناپا
چلی تھی خلد سے تو ساتھ تنہا
یہاں آ کر بنی ماں بیٹی آپا
گلابی ہو گئی وہ سر سے پا تک
الاؤ پر جب اس نے ہاتھ تاپا
تجا تھا سورگ کیوں سب یاد آیا
پکی گندم کو جب درانتی سے کاپا
کبھی تو مڑ کے تو دیکھے گی پیچھے
کبھی تو کھائے گی رستے پہ تھاپا
پیا اب تو پلٹ آ دیکھ آئی
سفیدی سر پہ چہرے پر بڑھاپا
جو گرجے وہ نہیں برسے کہیں بھی
کیا جو تو نے تو اس کی سزا پا
غزل
بدن سندر سجل مکھ پر سنہاپا
ناصر شہزاد