بدن سے جاں نکلنا چاہتی ہے
بلا اس گھر سے ٹلنا چاہتی ہے
یوں ہی آتش فشاں کب جاگتے ہیں
زمیں کروٹ بدلنا چاہتی ہے
حدود صحن گلشن سے نکل کر
صبا گلیوں میں چلنا چاہتی ہے
دھواں سا اٹھ رہا ہے چار جانب
کوئی صورت نکلنا چاہتی ہے
ہواؤں میں نہیں قوت نمو کی
مگر ٹہنی تو پھلنا چاہتی ہے
جو چہرہ ہے وہاں پھولی ہے سرسوں
زمیں سونا اگلنا چاہتی ہے

غزل
بدن سے جاں نکلنا چاہتی ہے
نجیب احمد