EN हिंदी
بدن پہ خرقۂ تہذیب پھٹنے والا ہے | شیح شیری
badan pe KHarqa-e-tahzib phaTne wala hai

غزل

بدن پہ خرقۂ تہذیب پھٹنے والا ہے

جمال اویسی

;

بدن پہ خرقۂ تہذیب پھٹنے والا ہے
جسے بچا کے رکھا ہے بہت سنبھالا ہے

تمہیں دکھاؤں میں شہر جدید کا نقشہ
یہ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد ہے یہ شوالہ ہے

تمام ریکوں میں رکھی ہوئی کتابوں میں
تمہیں خبر نہیں فکر و نظر کا جالا ہے

مہیب اندھیرے میں روشن خیال لوگوں پر
نہ جانے اگلے ہی پل کیا گزرنے والا ہے

جہاں بھی ابھری صدائے ضمیر انسانی
جدیدیت کے نقیبوں نے مار ڈالا ہے

فضا میں اڑتے ہوئے اور لڑکھڑاتے ہوئے
پرند خستہ کا اک آخری سنبھالا ہے